(تحریر، محمدطارق)
مسلم دنیا اور پاکستان میں جب بهی کوئی مذہبی تہوار قریب آتا ہے ، جیسے رمضان، عیدالفطر، تو اس وقت ٹی وی سکرینوں اور عام عوام میں انواع اقسام کے خیراتی ادارے کبهی کسی مذہبی مدرسے کے لیے ، کبهی غریبوں کے سکول کے لیے خیرات کی رقم اکٹهی کرنا شروع کر دیتے ہیں – اکثر اوقات ان خیراتی تعلیمی اداروں کی فنڈنگ کے لیے پاکستان کے مشہور لوگوں کو بهی استعمال کیا جاتا ہے۔
لیکن ہم یہ بات قطعی سمجنهے سے قاصر ہیں کہ جب مثلاً پاکستان میں ایک حکومت ہے ، اس حکومت کی ایک وزارت تعلیم ہے ، اس وزرات تعلیم کے نیچے ہر سطح میں صوبے سے لیکر یونین کونسل تک سرکاری سکول ہیں – تو پھر کیا تک بنتی ہے کہ ہر جگہ ان خیراتی، منافع بخش پرایئوٹ مدارس ، سکولوں کا جال بچها ہوا ہے – بلکہ یہ عوام کے کے ساتھ ظلم نہیں -؛؛
یاد رکهے جس دن کسی گاؤں ، یا شہر کے لوگ اس نقطے کہ سمجه گئے کہ اگر گا وں، یا شہر کا سکول ہمارا اپنا ہے – اسی کی بہتری ہماری بہتری ہے – اس لیے اگر کوئی کمی ، کوتاہئ ہے, تو اس اس گاؤں یا شہر کے لوگ اور والدین آپس میں مشاورت سے اس کمی کو سکول کی انتظامیہ سے مل کر حل کرنے کی کوشش کریں گے۔
کہ وہ ایک طرف مختلف مد میں حکومت کو ٹیکس بهی دے ، ووٹ بهی دے
پهر اپنے بچوں کو پرائیویٹ سکولوں میں بها ری فیسیں دے کر پڑهائے۔
ساتھ ہی دوسرے غریب بچوں کے لیے ان خیراتی اداروں کو بهی الگ رقم دے۔
اگر سکول کی انتظامیہ بات سننے کو تیار نہیں تو پهر والدین اور اکٹهے ہو کر مقامی سیاسی نمائندوں سے رابطہ کریں ۔
بلکہ ہر فورم پر فضول بحثیں، منظارے جاری اور عملی حل کسی کے پاس بهی نہیں۔
اگر سیاستدان بهی اس اہم فریضے پر کان نہ دهرے – تو یہاں سے مقامی سول سوسائٹی سے مل کر اپنے بنیادی حقوق کی جدوجہد کا آغاز کریں ۔ناکہ جب سرکاری سکول کام نہیں کر رہا ، تو وقتی آسان حل ڈهونڈ نکالیں، کہ پرایئوٹ اور خیراتی سکولز کهولنا شروع کر دیں۔
پرائیویٹ و خیراتی تعلیمی اداروں کی پہلی فصل تیار ہو چکی ہے – کہ پوری قوم کسی بهی ایک اجتماعی بنیادی ضروری اشیو پر متفق نظر نہیں آرہی -مذہب سے لیکر سیاست تک۔